Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 سہ پہر کا وقت تھا موسم میں خنکی رچی تھی،وہ ساحل کنارے ایک اونچے پتھر پر براجمان تھا،سنہری دھوپ کی نرم حدت ان کو سرد فضاؤں میں خوشگوار لگ رہی تھی۔ سمندر خاصے جوش میں تھا اس کے نیلگوں پانی کی لہروں میں سرکشی تھی ازحد غصہ و جنون راستے میں آنے والی ہر شے کو نیست و نابود کرنے کو تیار تھا،عادلہ کی نگاہوں ان کی سرکش موجوں پر ہی جمی تھیں۔
”اب معاف بھی کر دو مجھے یار!“ برابر میں بیٹھا شیری جھک کر مخاطب ہوا۔
”ہو گئی غلطی مجھ سے اور غصے میں نہ جانے تم سے کیا کیا کہہ گیا تھا میں جس کا احساس مجھے تمہارے جانے کے بعد ہوا اور میں اس پر شرمندہ ہوں۔“
”آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے؟“ عادلہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی پراعتماد لہجے میں استفسار کرنے لگی۔


”یس سوئٹ ہارٹ! تب ہی تو میں تم کو یہاں لے کر آیا ہوں۔ تم غصہ تھوک دو،معاف کر دو مجھ خطاکار کو۔
“ اس نے بڑی محبت سے اس کے سرد ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھاما اور عادلہ نے اس سے بے لچک انداز میں کہا۔
”پھر آپ کو مجھے یہاں لانے کے بجائے اپنے والدین کو میرے گھر بھیجنا چاہئے تھا میرے ممی پپا سے میرا پرپوزل مانگنے کیلئے۔“
”اوہ شٹ!“ اس نے عادلہ کے ہاتھ چھوڑ کر بے زاری سے کہا۔
”تم یہ ایک بات ہی کیوں کرتی ہو؟ مجھے چڑ ہے ایسی باتوں سے ابھی میں لائف انجواء کرنا چاہتا ہوں،پرندوں کی طرح آزادی سے رہنا میری خواہش ہے۔
میرڈ لائف مجھے گلے میں ڈالے گئے رسی کے پھندے کی مانند لگتی ہے کہ ذرا سی چوک ہوئی اور زندگی ختم۔“
”پرندوں کی مانند نہیں شیری! حیوانوں کی مانند زندگی گزارنا چاہتا ہو تم،شادی کرکے پابند ہونے کی تمہاری استطاعت نہیں ہے۔ جانوروں جیسی زندگی کو تم مزے دار زندگی کہہ رہے ہو؟“ عادلہ کے لہجے میں بلا کا طنز تھا۔
”مجھے قصور وار کہنے سے پہلے اپنا چہر بھی آئینہ میں دیکھ لو،تم بھی میرے ساتھ شریک رہی ہو۔
“ وہ ہونٹ بھینچ کر گویا ہوا۔
”اسی کا خمیازہ بھگت رہی ہوں۔“
”میری بات مان لو،جان چھڑاؤ اس مصیبت سے۔“ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے شیری کے لہجے میں نرمی در آئی۔
”ابھی ہمیں ان پرابلمز کو فیس کرنے کی ضرورت نہیں ہے،ابھی موج مستی کے دن ہیں ان بیوٹی فل ڈیز کے حسن کو کیوں ان باتوں میں پڑ کر گزارنا چاہتی ہو۔“
”یہ تمہاری سوچ ہے میری نہیں،تم میرا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر میرے لئے ان دنوں کو خوبصورت بنا سکتے ہو،ماں کا رشتہ دنیا کے ہر رشتے سے بڑا رشتہ ہے شیری! تم مجھے اس قابل بنا دو کہ میں سب کو فخر سے بتا سکوں کہ میں ماں بننے والی ہوں۔
“ وہ اس کے شانے پر سر رکھ کر ملتجی لہجے میں گویا ہوئی۔
”اوہ شٹ اپ اسٹوپڈ! یہ کیا تم نے رٹ لگائی ہوئی ہے شادی شادی… شادی،میں نے تم سے کہا ہے میں ابھی شادی کے حق میں نہیں ہوں،شادی نہیں کروں گا ابھی،تم کو سمجھ نہیں آتی ہے۔“ شدید غصے میں اس نے عادلہ کو خود سے دور کیا اورچیخ کر کہنے لگا۔ اس ماحول میں سمندر کی ادھم مچاتی لہروں اور شائیں شائیں چلتی ہواؤں میں اس کا دھاڑتا ہوا لہجہ دور دور تک گونج اٹھا تھا۔
”عادلہ نے اس کے اس طرح بے دردی سے خود سے دور کرنے پر خود کو سنبھالتے ہوئے سراسیمہ انداز میں ادھر ادھر دیکھا تھا لیکن یہ سرد دن تھا وہاں آنے والے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی،خاصے خاصے فاصلوں پر ان جیسے سر پھرے چند جوڑے ہی بیٹھے نظر آ رہے تھے۔
”دماغ درست نہیں ہے تمہارا،اس طرح کی باتیں یوں چیخ چیخ کر کی جاتی ہے؟ شکر ہے یہاں قریب سے کوئی موجود نہیں ہے۔
”کوئی موجود ہوتا بھی تو کیا کر لیتا میرا؟“
”تم کو تو اپنی عزت کی پروا نہیں ہے مگر مجھے فکر ہے اپنی عزت کی۔“
”ہونہہ! میرے سامنے اپنی پارسائی کی باتیں مت کیا کرو،ہنسی آتی ہے مجھے۔“
”اور مجھے رونا آتا ہے تم پر،تمہاری گندی ذہنیت پر۔“ وہ بے خوف انداز میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
”میرے سامنے کچھ زیادہ ہی زبان نہیں چلنے لگی ہے تمہاری؟“ وہ اس کا چہرہ ہاتھ سے پکڑتے ہوئے غرایا۔
”اپنی زبان بند رکھو وگرنہ بولنے کو ترسو گی۔“
”میری زبان تم بند نہیں کر سکتے مسٹر شہریار!“ وہ ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتی ہوئی اسی کے انداز میں غرائی۔
”کل تک میں کمزور تھی یا دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کھلونا بن گئی تھی تمہارے لئے لیکن اب میں تم کو بھاگنے نہیں دوں گی،ایک غلطی میں کر چکی ہوں،دوسری غلطی ہرگز نہیں کروں گی ابارشن کروا کر تمہارے گناہ پر پردہ نہیں ڈالوں گی،تمہارا مکروہ کردار سب کے سامنے لاؤں گی۔
”میں تمہاری پکڑ میں نہیں آؤں گا بے وقوف لڑکی! میں صاف انکار کر دوں گا یہ کہہ کر کہ تم جھوٹ کہہ رہی ہو،یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ لوگ میری بات کو سچ مانیں گے یا تمہاری بات کو؟“ اس نے مسکراتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں کہا۔
”اچھا… ایک بات بتاؤ؟“ وہ بھی اس کے انداز میں مسکرا کر بولی۔
”تم نے سچ مچ ہارورڈ سے ڈگری حاصل کی ہے یا ہمارے یہاں کے بڑے لوگوں کی طرح جعلی ڈگری خرید کر لائے ہو؟“
”شٹ اپ! میری ڈگری رئیل ہے وہاں ایسے کام نہیں ہوتے۔
”یہاں وہاں کہیں بھی فرشتے نہیں بستے ہیں ہر جگہ انسان ہیں اور پیسہ ہر انسان کی کمزوری ہے کرپشن ہر جگہ ہی ہوتی ہے۔“
”اوہو کیوں وقت ضائع کر رہی ہو عادلہ! میری بات مان لو پھر جو کہو گی وہ میں کرنے کیلئے تیار ہوں پلیز میری بات سمجھو۔“
”تم پڑھے لکھے ہو اور یہ نہیں جانتے،ڈی این اے ٹیسٹ سے تم کس طرح انکار کر پاؤ گے؟ میں اگر ڈوبوں گی تو ساحل پر تماشہ دیکھنے کیلئے تمہیں بھی زندہ نہیں چھوڑوں گی،یہ یاد رکھنا تم۔
“ وہ شاکڈ اس کا منہ تکتا رہ گیا۔
”اوہ رئیلی اس طرف تو میرا دماغ ہی نہیں گیا تھا۔“
”جاتا بھی کیسے ؟ تم دل استعمال کرنے والے بندے ہو۔“ پھر دونوں خاموش ہو کر بیٹھے رہے چند لمحے بعد وہ اٹھ کر اندر ہٹ میں چلا گیا عادلہ گیلی ریت پر اس کے پاؤں کے ابھرے ہوئے نشان دیکھنے لگی اس کو لگا یہ بھیگی ریت اس کا دل بن گئی ہے جس پر وہ بے رحمی سے چلتا ہوا گزر گیا تھا،لہر آئی اور اس کے قدموں کے نشانات مدھم کر گئی۔
ایک دو،تین لہروں نے ان سنگدل قدموں کے نشانات مٹا دیئے تھے۔ اب ریت پر کوئی نشان باقی نہ رہا اس کا دل بھی اسی طرح جذبوں سے خالی ہو گیا تھا۔ وہ دور پہاڑوں کے اس پار سورج کی سرخ تھالی کو دیکھ رہی تھی۔
وہ چند دنوں سے زینب خالہ کے گھر مقیم تھی صباحت نے ساس کی جہاں دیدہ نگاہوں کے خوف سے اس وقت تک کیلئے اس کو وہاں چھوڑ دیا تھا تب تک وہ کسی قابل بھروسہ ڈاکٹر کا بندوست نہ کر لیں۔
وہ ابارشن کے حق میں نہ تھی وہ جانتی تھی اس بچے کے ذریعے ہی وہ شہریار کو حاصل کر سکے گی۔ آج شہریار نے اس کو بلایا تو زینب کو بغیر اطلاع دیئے اس کے ساتھ آ گئی تھی،بہت ساری خوش گمانیوں کے ساتھ شاید شیری کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور وہ مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے اپنی پسندیدہ جگہ پر اس کو لے کر آیا تھا مگر خوش گمانی… خوش گمانی ثابت ہوئی،اس کا پتھر دل پتھر ہی رہا تھا،وہ بے آواز آنسو بہانے لگی۔
”گرما گرم کافی حاضر ہے۔“ کچھ دیر بعد وہ مسکراتا ہوا ہشاش بشاش انداز میں وہاں آیا اور بھاپ اڑاتا مگ اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔
”ناراضی چھوڑو ڈیئر! یہ کافی پیو،ریلیکس ہو جاؤ گی۔“
”کافی تو پیو ابھی چلتے ہیں۔ تم مجھے کچھ سوچنے کیلئے ٹائم تو دو!“
”رئیلی تم کو میری بات سمجھ آ گئی ہے نا؟“ اس نے مگ لیتے ہوئے کہا۔
###
رات بے حد گہری تھی صحرا کی حبس آلود فضا میں شدید گھٹن پھیلی ہوئی تھی،ماہ رخ اپنے ایئر کنڈیشن کمرے میں کھڑکی کے شفاف شیشوں کے قریب کھڑی باہر برستی چاندنی کو دیکھ رہی تھی۔ آسمان پر ڈھیروں ستاروں کے جھرمٹ میں چاند اپنی بے داغ چاندنی نچھاور کر رہا تھا جس سے ذرہ ذرہ روشن تھا،منور تھا مگر پھر بھی ایسا سکوت پھیلا تھا کہ وہ اس ٹھنڈے کمرے میں بھی ایک گہرے اضطراب و دکھ میں مبتلا تھا،دل کو عجیب سی ہوک لگی تھی،دل کو ہر گھڑی یہ دھڑکا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔
اعوان اس کے بغیر جانے کو تیار نہ تھا۔
حاجرہ کو ایک دن بھوکا،پیاسہ تہہ خانے میں پڑے ہو چکا تھا،مستزادہ وہ زخمی بھی تھی،غفران احمر نے محبت کا دعویٰ تو بہت کیا تھا مگر وہ اس کی محبت میں اپنے اصول توڑنے کو تیار نہ تھا بہت اس کی محبت و التفات کے جواب میں اس نے اسے حاجرہ سے ملنے کی اجازت دی تھی۔ وہ بھی مشروط کہ وہ حاجرہ کو وہاں سے نکالنے کی کوشش نہیں کرے گی اس وقت وہ ذاکرہ کا انتظار کر رہی تھی۔
”ذاکرہ! کہاں تھیں اتنی دیر لگا دی تم نے؟ جانتی ہو حاجرہ سے ملنے کیلئے کتنی بے کل ہو رہی ہوں،ایک ایک پل بھاری لگ رہا ہے۔“ خاضی دیر بعد ذاکرہ کو وہاں آتے دیکھ کر وہ غصے سے گویا ہوئی۔
”معافی چاتی ہوں رانی صاحبہ! بات ہی ایسی تھی کہ وہ میں فوراً نہ آ سکی۔“ وہ ماہ رخ کو غصے میں دیکھ کر گھبرا کر بولی۔
”خیریت کیا بات تھی؟ غفران کو خبر تو نہیں ہو گئی اعوان کے ارادوں کی،جلدی بتاؤ؟“ وہ ہر لمحہ اسی خوف میں مبتلا رہتی تھی۔
”نہیں نہں رانی صاحبہ! یہ بات بالکل بھی نہیں ہے۔“
”پھر کیا بات ہے؟“ اس کی مرتعش دھڑکنوں کو قرار ملا۔
”چند دنوں سے دلربا کی حرکتیں بہت عجیب و پراسرار سی ہو گئی اس نے جب سے آپ کے اور رئیس کے نکاح کی خبر سنی ہے تب سے ہی وہ بے چین و بے سکون رہنے لگی وہ کچھ گڑ بڑ کرنے والی ہے۔“
”مجھے معلوم ہے وہ پہلے دن سے ہی مجھے پسند نہیں کرتی اب اس کا رویہ بدل گیا ہے مگر اس کی آنکھوں میں چھپی نفرت مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے وہ ان دنوں بھی اسی تگ و دود میں لگی ہے کہ کسی طرح وہ اعوان اور میرے تعلق کی خبر غفران احمر تک پہنچا کر مجھے عبرتناک سزا دلوا سکتے۔
”پھر آپ نے خاموشی کیوں اختیار کی؟ پہلی فرصت میں کوئی بھی الزام لگا کر اس فتنہ پرور عورت کو موت کی سزا دلواتیں،رئیس آپ کی بات کبھی نہیں ٹالتے افسوس آپ نے زندہ رہنے دیا اور وہ آپ کو مارنے کی سازشوں میں غرق رہنے لگی ہے آج کل۔“ ذاکرہ کے لہجے میں ازحد ملال و تاسف ابھر آیا تھا۔
”میں پہلے ہی بہت گناہگار ہوں دلربا کو مار کر اپنے اعمال نامہ کو مزید سیاہ کرنا نہیں چاہتی۔
کبھی موقع ملا تو اس جذباتی عورت کو سمجھاؤں گی رئیس جیسے ہرجائی صفت مرد کبھی بھی ایک عورت کے نہیں ہو سکتے،یہ لوگ بھنورے جیسی فطرت رکھتے ہیں وہ کل تک مجھے اپنے فائدے کیلئے استعمال کر رہا تھا نکاح کے چند دنوں بعد ہی اس کا دل بھر جائے گا وہ اپنے جذبات پر لعنت بھیجنے کے ساتھ ہی مجھے بھی کسی ایسے مرد کے حوالے کر دے گا جس سے اس کا کوئی کام اٹکا ہوا ہو۔
“ وہ دھیمی آواز میں اس سے کہہ رہی تھی۔
”میں آپ کو مشورہ دینے کی اہل تو ہرگز نہیں ہوں رانی صاحبہ لیکن یہ ضرور کہوں گی دلربا سے آپ بہت ہوشیار ہیں،میں ہر ممکن اس کی نگرانی کرتی ہوں لیکن اس کو رئیس نے سارے اختیارات سونپ رکھے ہیں کچھ معاملات میں چاہ کر بھی مداخلت نہیں کر سکتی ہوں۔“
”دلربا کی کن پراسرار حرکتوں نے تم کو پریشان کیا ہوا ہے ذاکرہ؟“ اس کو سخت متوحش دیکھ کر ماہ رخ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
”وہ آج محل سے باہر گئی تھی چند گھنٹوں بعد لوٹی تو خاصی چوکنا انداز میں تیز تیز چلتی ہوئی ہے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور وہ ابھی تک اپنے کمرے سے نہیں نکلی اور کمرہ بھی اندر سے بند کر رکھا ہے۔“
”وہ کس سے ملنے گئی ہو گی؟“
”یہاں اس کا کوئی نہیں ہے رانی صاحبہ! وہ کس سے ملنے جائے گی؟“
”شاید تم نہ جانتی ہو اس نے باہر کسی سے دوستی کر رکھی ہو،خیر چھوڑو وہ کہاں گئی،کیوں گئی؟ اس سے مجھے سروکار نہیں ہے تم مجھے فوراً حاجرہ کے پاس لے چلو مجھ سے اس کی جدائی برداشت نہیں ہو رہی ہے۔“
”رانی صاحبہ! آپ نے رئیس سے اجازت لے لی ہے،کہیں میرا بھی انجام حاجرہ سے بدتر نہ ہو؟“ وہ خوف زدہ لہجے میں گویا ہوئی۔

   1
0 Comments